Circle Image

عادل عبدل رزاق

@Adil.111

خود سے یوں بھی ہے آتش کو نکلتے دیکھا
اپنے بدن کو بارش میں ہے جلتے دیکھا
میں ٹوٹا ہوا تھا بکھرا ہوا تھا اس لمحے
جس لمحے تم نے تھا مجھ کو سنبھلتے دیکھا
دیکھا میں نے دولت پہ بھی مرتے ہوئے لوگوں کو
میں نے غربت سے بھی لوگوں کو مرتے دیکھا

0
6
میں اب کسی سے باتیں نہیں کرتا ہوں
پر چپ رہ کے بھی کیا کیا کہہ جاتا ہوں
تو باپ کی اک خوش قسمت بیٹی ہے
میں اپنی ماں کا بدقسمت بیٹا ہوں
اپنی اب تو یہ حالت ہو گئی ہے
وہ مسکرا دے گر تو میں رو پڑتا ہوں

0
13
کس سے پوچھیں اس کا رستہ کدھر لگتا ہے
شہر کا ہر بندہ ہی یہاں بے خبر لگتا ہے
اب تو جو دیکھوں کچھ نہیں دکھتا تیرے علاوہ
یہ تیری آنکھوں کے نشے کا اثر لگتا ہے
چہرے کو اپنے یوں سجا رکھا ہے میں نے
خوش تو نہیں ہوں کہیں سے بھی میں مگر لگتا ہے

0
25