| خود سے یوں بھی ہے آتش کو نکلتے دیکھا |
| اپنے بدن کو بارش میں ہے جلتے دیکھا |
| میں ٹوٹا ہوا تھا بکھرا ہوا تھا اس لمحے |
| جس لمحے تم نے تھا مجھ کو سنبھلتے دیکھا |
| دیکھا میں نے دولت پہ بھی مرتے ہوئے لوگوں کو |
| میں نے غربت سے بھی لوگوں کو مرتے دیکھا |
| جب دیکھا میں نے اس کو کل راہ میں اک دم |
| پھر دم اپنا میں نے خود سے نکلتے دیکھا |
| دیکھا عکس جو اپنا میں نے کل پانی میں |
| اپنی لاش کو سارا میں نے جلتے دیکھا |
| وہ جس شخص کی خاطر میرے سے بچھڑا تھا |
| پھر اس کو اس سے بھی میں نے بچھڑتے دیکھا |
| تم موسم کے جلدی بدلنے پہ حیراں کیوں ہو |
| میں نے تو یوں لوگوں کو بھی بدلتے دیکھا |
| ہر ہی موڑ پہ سانحہ بھی ہوا اک ہی عادل |
| ہر ہی موڑ پہ کوئی میں نے بچھڑتے دیکھا |
معلومات