| کس سے پوچھیں اس کا رستہ کدھر لگتا ہے |
| شہر کا ہر بندہ ہی یہاں بے خبر لگتا ہے |
| اب تو جو دیکھوں کچھ نہیں دکھتا تیرے علاوہ |
| یہ تیری آنکھوں کے نشے کا اثر لگتا ہے |
| چہرے کو اپنے یوں سجا رکھا ہے میں نے |
| خوش تو نہیں ہوں کہیں سے بھی میں مگر لگتا ہے |
| یہ اک ہاتھ میں پھول تو پکڑا ہے تو نے لیکن |
| تیرے دوسرے ہاتھ میں تو خنجر لگتا ہے |
| وہ اک شخص جو چھوڑ گیا ہے اسے کیا معلوم |
| اس کے بنا عادل عادل بھی کدھر لگتا ہے |
| اب نہ ہی چھیڑو ذکر یہ میرے سامنے عادل |
| اب جب آتا ہے نامِ محبت ڈر لگتا ہے |
معلومات