مجھے تجھ سے بچھڑ جانے کا دکھ ہے
کلی کے کھل کے مرجھانے کا دکھ ہے
مجھے کل تو نے ٹھہرایا تھا لیکن
جہاں کو آج ٹھکرانے کا دکھ ہے
وفا پانے کی دل میں آرزو تھی
تماشا بن کے رہ جانے کا دکھ ہے

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


197
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنِ دارِ دل و جاں
مری حالت سدھاری جا رہی ہے

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


0
1250
اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا نہ پایا
اگر پایا تو کھوج اپنا نہ پایا
مقدّر پر ہی گر سود و زیاں ہے
تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا نہ پایا
کہے کیا ہائے زخمِ دل ہمارا
دہن پایا لبِ گویا نہ پایا

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


1472
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟
نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


1913
ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
ہوا بزمِ طرب میں رقصِ ناہید
کہا غالبؔ سے "تاریخ اس کی کیا ہے؟"
تو بولا " اِنشراحِ جشنِ جمشید

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


0
493
نہیں سنتا دلِ ناشاد میری
ہوئی ہے زندگی برباد میری
رہائی کی اُمیدیں مجھ کو معلوم
تسّلی کر نہ اے صیّاد میری
نہیں ہے بزم میں ان کی رسائی
یہ کیا فریاد ہے فریاد میری

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


1332
سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
غنیمت ہے جہاں میں دم ہمارا
رہے ہم عالمِ مستی میں اکثر
رہا کچھ اور ہی عالم ہمارا
بہت ہی دور ہم سے بھاگتے ہو
کرو ہو پاس کچھ تو کم ہمارا

مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن


1595