تقطیع
اصلاح
اشاعت
منتخب
مضامین
بلاگ
رجسٹر
داخلہ
27 دسمبر
غزل
میر تقی میر
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا
مقصود کو تو دیکھیں کب تک پہنچتے ہیں ہم
بالفعل اب ارادہ تا گور ہے ہمارا
کیا آرزو تھی جس سے سب چشم ہو گئے ہیں
ہر زخم سو جگہ سے ناسور ہے ہمارا
گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
1
528
29 جولائی
غزل
داغ دہلوی
یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا
جب تک ہے دل بغل میں ہر دم ہو یاد تیری
جب تک زباں ہے منہ میں جاری ہو نام تیرا
ہے تو ہی دینے والا پستی سے دے بلندی
اسفل مقام میرا اعلیٰ مقام تیرا
یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
3
2700
29 جولائی
غزل
مرزا غالب
میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟
ہے ایک تیر جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا
درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں
جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا
میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
0
667
معلومات