| نہ وہ راتیں نہ وہ باتیں نہ وہ قصّہ کہانی ہے |
| فقط اک ہم ہیں بستر پر پڑے اور ناتوانی ہے |
| بھلا میں ہاتھ دھو بیٹھوں نہ اپنی جان سے کیوں کر |
| خرام اس کے میں اک آبِ رواں کی سی روانی ہے |
| تو یوں بے پردہ ہو جایا نہ کر ہر ایک کے آگے |
| نیا عالم ہے تیرا اور نئی کافر جوانی ہے |
| نہ تنہا گل گریباں پھاڑتے ہیں دیکھ اس سج کو |
| چمن میں آب جو بھی چال پر اس کی دوانی ہے |
| تری باتوں نے تو اے مصحفی جی کو جلا ڈالا |
| خدا کے واسطے چپ رہ یہ کیا آتش زبانی ہے |
بحر
|
ہزج مثمن سالم
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن |
اشعار کی تقطیع
تقطیع دکھائیں
معلومات