یوں تو ہر تِنّکے میں ہے پنہا بقائے زندگی |
روحِ آدم نے مگر پایا یہ پہلی بارگی |
گُل و شبنم کے بناوٹ سے ہُوا حیرت زدہ |
اور اس کے روح و من میں بڑھ گئی بے تابگی |
بے رُخی سے بے دِلی کے دام میں بھٹکا رہا |
گر پڑا سجدے پہ آخر، چل پڑی دیوانگی |
لاَ اِلاہا لاَ اِلا پڑھتا گیا بڑھتا گیا |
سوزِ تن سے راکھ بن کر پاچکا لاحوت گی |
شا فَقیرے خاک بھی انجم سراپا ہوچلا |
وہ کہی بھی تو نہیں تھا اور تھا بھی ہر کہی |
معلومات