شبِ تار کو مثل مہتاب کردو
چلے آؤ جذ بوں کو سیراب کردو
شکایت نہیں مجھ کو آنکھوں سے لیکن
حقیقت جو دیکھی اُسے خواب کردو
ہوا جاتا ہے زرد نظم بهاراں
شبستان دِل سبز شاداب کردو
ہمیشہ منازل کی خا طر پریشاں
کبھی منزلوں کو بھی بے تاب کردو
نہیں اب مُجھے تاب ضبط سُخن کی
تکلم کے قدسی تم اسباب کردو

1
59
بہت خوب۔

0