ترے رخ پہ جس کی بھی پڑتی نظر ہے
تو پھر ہوش دنیا کی رہتی کدھر ہے
جمالِ رخِ مصطفی دیکھ لے تو
ندامت سے منہ کو چھپاتا قمر ہے
جھلک تیری کی تاب جولا سکے وہ
نہیں آنکھ اب تک بنائی نڈر ہے
خدا نے رکھا حسن محجوب تیرا
حقیقت تری کی خدا کو خبر ہے
بڑا ڈھیٹ نجدی نہیں مانتا ہے
تری اصل نوری لبادہ بشر ہے
جو کھل جائیں اے دلربا تیرے گیسو
تو چھاتی ہے شب ڈوب جاتی سحر ہے
ہٹائے تو جو اپنے چہرے سے پردہ
اندھیرے میں بھی سوئی آتی نظر ہے
ہوں عاجز بیاں کرنے سے وصف تیرے
ثنا خوان تیرا تو سارا دہر ہے

0
3
21
آپ کے کلام میں کافی تبدیلوں کی ضرورت ہے۔ابھی میں نے آپ کی نعت رخ مصطفی پڑھی۔
۔ تیسرے شعر کا پہلے مصرعہ یوں لکھیں۔ " جھلک کی تری تاب جو لا سکے وہ"
۔ دوسرا مصرعہ " نہیں آنکھ ایسی بنائ نڈر ہے"
۔ چوتھا شعر " حقیقت کی تیری خدا کو خبر ہے "
۔ چھٹا اور ساتواں شعر نعت کے معیار پہ نہیں نکال دیں
۔ دَہَر نہیں ہوتا دَہْر ہے ، اس کا وزن غلط ہے۔

شکریہ

0

میں عاجز بیاں کرنے سے وصف تیرے
کہ بعد از خدا اونچا بس تیرا در ہے
یہ ٹھیک ہے؟

0