میں بھی نکلا تھا کہیں عشق کمانے کے لئے
دل کے آنگن میں کوئی دیپ جلانے کے لئے
ہو گئے اب وہ پرانے جو ملے زخم مجھے
پھر ہوں تیار نئے دوست بنانے کے لئے
کر دو افکار کی ترتیب سے بیگانہ مجھے
دل میں اک سوز کہیں پھر سے جگانے کے لیے
دل کے دامن کو ذرا پھر سے وہ چھلنی کر دے
کوئی ترکیب کرو اس کو بلانے کے لئے
مضطرب کر دے جو امواجِ تخیل کو مرے
راگ ایسا کوئی چھیڑو تو سنانے کے لئے
دل میں طاقت ہے کہاں سوچ یہ آتی ہے مجھے
اک نیا بوجھ ترے غم کا اٹھانے کے لئے
اپنے خنجر کو چپھائے ہیں بغل میں اپنے
ہیں جو تیار مجھے ہاتھ ملانے کے لئے
اس ہمایوں کے ستاروں کی ہے گردش بھی عجب
غم ہی ڈھونڈوں میں ترے غم کو بھلانے کے لئے
ہمایوں

2
59
مضطرب کر دے جو امواجِ تخیل کو مرے
کیا بات ہے واہ!

شکریہ جناب

0