میں بھی نکلا تھا کہیں عشق کمانے کے لئے |
دل کے آنگن میں کوئی دیپ جلانے کے لئے |
ہو گئے اب وہ پرانے جو ملے زخم مجھے |
پھر ہوں تیار نئے دوست بنانے کے لئے |
کر دو افکار کی ترتیب سے بیگانہ مجھے |
دل میں اک سوز کہیں پھر سے جگانے کے لیے |
دل کے دامن کو ذرا پھر سے وہ چھلنی کر دے |
کوئی ترکیب کرو اس کو بلانے کے لئے |
مضطرب کر دے جو امواجِ تخیل کو مرے |
راگ ایسا کوئی چھیڑو تو سنانے کے لئے |
دل میں طاقت ہے کہاں سوچ یہ آتی ہے مجھے |
اک نیا بوجھ ترے غم کا اٹھانے کے لئے |
اپنے خنجر کو چپھائے ہیں بغل میں اپنے |
ہیں جو تیار مجھے ہاتھ ملانے کے لئے |
اس ہمایوں کے ستاروں کی ہے گردش بھی عجب |
غم ہی ڈھونڈوں میں ترے غم کو بھلانے کے لئے |
ہمایوں |
معلومات