لُٹایا ہے مِہران، تھر کھا گئی ہے
نہ کھانا تھا ہرگز مگر کھا گئی ہے
یہ فن کھا گئی ہے، ہُنر کھا گئی ہے
حکُومت غرِیبوں کے گھر کھا گئی ہے
مِلی ہے قیادت جو بے کار اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
بہایا ہے مزدُور نے وہ پسِینہ
ہُؤا موت سے بھی بُرا اُس کا جِینا
کِسانوں میں رہنے دیا نہ قرِینہ
مُلازِم کا اِس نے ڈبویا سفِینہ
سِسکتا دِکھے ہم کو سنسار اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
مُیسّر ہے پانی، نہ ہی گیس آئے
ہر اِک گام پر ہم کو بجلی ستائے
دُہائی ہے، تُف، حیف ہے ہائے ہائے
خُدا حُکمرانوں کو عِبرت بنائے
کُھلے بے حیاؤں کے کِردار اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
کبھی سال میں ہی تو لاتے تھے پہلے
پھلوں کی وہ قِیمت بتاتے تھے پہلے
جو سبزی گھروں میں بناتے تھے پہلے
پہُنچ میں نہیں، لے کے آتے تھے پہلے
ہُوئے بے سکت دیکھو سرکار! اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
مُعالِج، مُعلّم، وکِیلوں کو دیکھو
یتِیموں کی آنکھوں میں جِھیلوں کو دیکھو
حکُومت کی جُھوٹی دلِیلوں کو دیکھو
جو ڈھانچے کو نوچے ہیں چِیلوں کو دیکھو
تماشا چلے گا نہ فنکار! اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
ترقّی کے اِس نے تو وعدے کِیئے تھے
دِلاسے بھی سادہ دِلوں کو دِیئے تھے
اُدھیڑے ہیں، جو زخم ہم نے سِیئے تھے
نہ اب جِی رہے ہیں نہ پہلے جِیئے تھے
بنی زِیست تلوار کی دھار اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
گِرانی کا آیا ہے طُوفان ایسا
کبھی نا گیا کوئی رمضان ایسا
جگا دل میں پھل کا کُچھ ارمان ایسا
ترستا ہو روٹی کو سُلطان ایسا
مُسلّط ہے گویا کہ خرکار اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
وطن کیوں کیا ہے گدھوں کے حوالے
کہاں کھو گئے ہیں، سجِیلے، جیالے
رہے مصلحت کے جو ہونٹوں پہ تالے
تو گویا وطن "وہ" دھویں میں اُڑالے؟
بنو خلقِ بے بس کی للکار اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
وطن تیری عظمت رہے گی سلامت
جو نا اہل ہیں میں کرُوں گا ملامت
کہ آنے کو ہے ایسے لوگوں کی شامت
یہ آواز حُبِّ وطن کی علامت
کہ اہلِ وطن ہوں گے بیدار اب کے
ہُؤا ہر کوئی جاں سے بیزار اب کے
رشِید حسرتؔ

1
48
کیا کہنے۔۔۔بہت خوب۔۔۔دل کو چھو لیا
لاجواب جناب۔۔۔?????

0