مطلب کے رنگ میں کبھی نفرت کے رنگ میں |
ملتے ہیں ملنے والے سیاست کے رنگ میں |
ہر ایک شب گزرتی ہے فرقت کے رنگ میں |
رونق ہے میرے کمرے میں خلوت کے رنگ میں |
مشہور ہم جہاں میں ہیں تہمت کے رنگ میں |
انعام دے گئے ہیں وہ ذلت کے رنگ میں |
وحشت ہے ایک ،کیفیتِ شاعری کہ ہم |
بس رنگے جا چکے اسی وحشت کے رنگ میں |
عہدِ وفا کیا ہے مگر سوچتے ہیں اب |
کیوں چھیڑ ،چھیڑ لی ہے مصیبت کے رنگ میں |
بے سود ہے نبھاہ کہ حاصل تو کچھ نہیں |
بس سر لی ہے بلا یہ محبت کے رنگ میں |
شامِ جدائی آنے کو ہے دن تو ڈھل گیا |
خاموشی سر چڑھے ہے شرارت کے رنگ میں |
سب خوف ناک ہے، ہے بہت خوف ناک سب |
بیٹھے ہیں صحنِ شب میں ہزیمت کے رنگ میں |
یہ حادثہ بھی کم نہیں ہے اپنے درمیاں |
ہر بار ہم ملے ہیں مصیبت کے رنگ میں |
پیہم تھے وار لفظوں کے، لہجے تھے کتنے سرد |
ہوتے تھے ہم کلام ملامت کے رنگ میں |
جذبے نہیں، تعلقِ بے دید ہے یہاں |
دنیا سے دنیا ملتی ہے وحشت کے رنگ میں |
دورِ جدید چل رہا ہے جھوٹ پر فقط |
چلتی ہے عاشقی یہاں شہوت کے رنگ میں |
یوں تو یہ شمع راکھ کیے دیتی ہے مگر |
پروانے آن ملتے ہیں الفت کے رنگ میں |
آپس میں ملنا جسموں کا کارِ زیاں رہا |
اب خود کو کوستے ہیں ندامت کے رنگ میں |
یوں ہی پسینے سے ہیں شرابور رات دن |
آتی ہے یاد ان کی حرارت کے رنگ میں |
لگنے لگا ہے ڈر کہ سبھی منظروں سے زیبؔ |
طاری ہے خوفِ ہجر قیامت کے رنگ میں |
معلومات