شب بیداری بھی کب نہیں ہوتی
جب ضرورت ہو تب نہیں ہوتی
تم جو چاہو تو بھول سکتے ہو
اتنی وحشت تو اب نہیں ہوتی
مجھ کو رنجش ملی ہے رشتوں سے
پھر بھی میں بے ادب نہیں ہوتی
اپنی تنہائی راس آتی ہے
اب کسی کی طلب نہیں ہوتی
آنکھ اشکوں سے تر نہیں ہوتی
ہو بھی تو بے سبب نہیں ہوتی
ہر کسی پر جو مر مٹے ہو تم
ہر کلی تو مطب نہیں ہوتی
سوچ لو تم اگر یہاں ہوتے
یہ کہانی عجب نہیں ہوتی؟
اپنے گھر سے کہیں نہیں جاتی
اپنے گھر کوئی شب نہیں ہوتی
راشدہ کنول

1
16
واہ، بہت خوب