شب بیداری بھی کب نہیں ہوتی |
جب ضرورت ہو تب نہیں ہوتی |
تم جو چاہو تو بھول سکتے ہو |
اتنی وحشت تو اب نہیں ہوتی |
مجھ کو رنجش ملی ہے رشتوں سے |
پھر بھی میں بے ادب نہیں ہوتی |
اپنی تنہائی راس آتی ہے |
اب کسی کی طلب نہیں ہوتی |
آنکھ اشکوں سے تر نہیں ہوتی |
ہو بھی تو بے سبب نہیں ہوتی |
ہر کسی پر جو مر مٹے ہو تم |
ہر کلی تو مطب نہیں ہوتی |
سوچ لو تم اگر یہاں ہوتے |
یہ کہانی عجب نہیں ہوتی؟ |
اپنے گھر سے کہیں نہیں جاتی |
اپنے گھر کوئی شب نہیں ہوتی |
راشدہ کنول |
معلومات