سوکھے درخت پر ہی فقط آشیاں رہا |
لیکن مرے وجود میں آتش فشاں رہا |
ڈر تھا کہ جل نہ جائے یہ خود سے ہی زندگی |
یہ خوف بس تمام عمر ناگہاں رہا |
رشتے تمام مٹھیوں کی ریت ہو گئے |
تتلی تو اُڑ گئی مگر اس کا نشاں رہا |
ہر ظلم سہہ لیا ہے ہر اک امتحاں دیا |
میں جان سے گذر گیا وہ بد گماں رہا |
شاہدؔ سمجھ میں آئی ہے جب سے یہ زندگی |
میری زمیں رہی نہ مرا آسماں رہا |
معلومات