سوکھے درخت پر ہی فقط آشیاں رہا
لیکن مرے وجود میں آتش فشاں رہا
ڈر تھا کہ جل نہ جائے یہ خود سے ہی زندگی
یہ خوف بس تمام عمر ناگہاں رہا
رشتے تمام مٹھیوں کی ریت ہو گئے
تتلی تو اُڑ گئی مگر اس کا نشاں رہا
ہر ظلم سہہ لیا ہے ہر اک امتحاں دیا
میں جان سے گذر گیا وہ بد گماں رہا
شاہدؔ سمجھ میں آئی ہے جب سے یہ زندگی
میری زمیں رہی نہ مرا آسماں رہا

1
76
مقطع کمال ہے سر۔