محفل میں آواز لگائی جاتی ہے
بے مطلب کی بات سنائی جاتی ہے
فرصت کس کے پاس ہے ملنے جلنے کی
مجبوراً اب رسم نبھائی جاتی ہے
پہلے ڈر تھا پتھر کا اب خوف نہیں
شیشے کی دیوار بنائی جاتی ہے
ظالم کا چلتا ہے سکہ چاروں طرف
مظلوموں کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے
سڑکوں ںپر کھینچی جاتی ہے مرنے تک
اب تو بیٹی ایسے بچائی جاتی ہے
غربت کا بہتا ہے پسینہ تب جاکر
محلوں کی دیوار اٹھائی جاتی ہے
چھوٹی چھوٹی بات پہ طیب اب گھر میں
بھائی پر بندوق چلائی جاتی ہے

2
76
طیب صاحب! مشورہ دینے کی گستاخی معاف فرما دیجیئے گا ۔۔۔
وزن پورا ہو گا اگر دو اشعار یوں ہوں۔۔۔۔

راہوں میں رسوا ہوتی ہے مرنے تک
اب تو بیٹی ایسے بچائی جاتی ہے
غربت کا بہتا ہے پسینہ تب جاکر
کاخ کی اِک دیوار اٹھائی جاتی ہے

بہت بہت شکریہ محترم💕💕💕
اللہ آپ کو سلامت رکھے
گستاخی کیسی محترم آپ کو جو بہتر لگا آپ نے بتایا
اللہ آپ کو بہترین بدل عطا فرمائے