جو ہمیشہ فقط اپنی باتیں کریں
خود ہی آئین اپنے لیے توڑ دیں
خود ہی اپنے لیے ان کا ہر فیصلہ
صرف اپنے لیے ان کا ہر سلسلہ
ایسے قانون کو، ایسے قارون کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
جو کبھی نور کی رہ پہ چل نا سکے
بس اندھیروں میں اپنی بقا ڈھونڈھتے
حق کو بھی اپنے جھوٹوں میں یہ تولتے
اپنے آقا کی مرضی سے یہ بولتے
ایسے الزام کو، ایسے ہر کام کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
جن کے قدموں میں انسانیت خاک ہو
جن کا پورا بدن گندہ، ناپاک ہو
ظالموں کا حکومت پہ یہ ناز ہو
جن کے ہاتھوں میں بس خون کا ساز ہو
ایسے انجام کو، ظلم کے نام کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
جو وفاؤں کے بدلے میں غم بانٹتے
اور محروم لوگوں پہ کرتے ہیں وار
اپنے نفرت کے کھیلوں میں ہیں جو مگن
ایسے دجالوں کو، ایسے بے حالوں کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
جو بناتے ہیں نفرت کا ہر اک نشاں
جن کے ہاتھوں میں خوں کا ہے بس اک جہاں
جن کی سوچوں میں ہے فتنے کا ہی گماں
جھوٹے ان خوابوں کو، جھوٹے ان وعدوں کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

1
44
واہ واہ کیا کہنے ہیں۔