اندھیرے میں نہیں رکھنا
جو حق ہے وہ بتانا ہے
سمجھ پاؤ تو حاضر ہوں
تسلی ایک دھوکہ ہے،
جو کھانا ہے تو حاضر ہوں
وفا کچھ بھی نہیں ہوتی
جفا کا دور دورا ہے
جو سہہ لو گے تو حاضر ہوں
کوئی امید مت رکھنا
امید اک آئینہ ہے اور
یہ اکثر ٹوٹ جاتا ہے
اٹھا لو گے اگر ٹکڑے
تو حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
محبت کچھ نہیں ہوتی
فقط ہے کھیل جسموں کا
مجھے اس کھیل سے الجھن،
نبھانے سے محبت ہے
نبھا لو گے تو حاضر ہوں
اگر عادت تمہاری ہے
کسی کو چھوڑ جانے کی
کہ اس کو توڑ جانے کی
اگر لذت اٹھانا ہے
تو مجھ کو بخش ہی دو تم
اگر تم زخم خردہ ہو
تو کچھ گھاؤ ہیں میرے بھی
اگر بھرنا، بھرانا ہے
اگر مرحم لگانا ہے
تو حاضر ہوں، میں حاضر ہوں
یقیں مانو، میں حاضر ہوں
اشفاق احمد

3
246
واااہ وااااہ کمال است بہت خووووبپیارے بھائی

شانداااار نظم ❤️❤️

شکریہ