| جب ترے شہر میں آغوشِ وداعی ہو گی |
| حلقۂ یاراں میں رقصاں تبھی قاتل ہوگا |
| چارسو ہوگا ترے نام کا چرچا جاناں |
| صبح کی بادِ قضا تیری عبا اوڑھے گی |
| رَخّشِ مہتاب ترے نام سا روشن ہوگا |
| رُخِ آکاش ترے گال کی سرخی لے کر |
| دامنِ جھیل پہ پھر عکس کشائی کرتا |
| جبکہ ہر شخص نے رودادِ گزشتہ تھامے |
| سر بکف جھومتا لہراتا ہوا آتا ہو |
| فردا امروز سے ہر دل میں سما جائے یا |
| سبط اس خاک پہ وہ نقشِ قدم کر جائے |
| تب کہیں اہل جنوں دل میں تری چاہت کے |
| وہ سبھی عہد کے شمعے جو کبھی بُجھ نہ سکے |
| جن سے اک عمر رہی تاب جی بہلانے کی |
| دل کے شب بستہ دریچوں میں بجھا کر |
| خوابِ جانان کو پھر خاک تَلے دفنا کر |
| اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے لوٹ آئیں گے |
معلومات