ہم سے پہلے بھی کئی لوگ رہے وابستہ
مکتبِِ عشق میں ہم لوگ نہیں نووارد
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
گھومتے پھرتے ہیں ہم شکل یہاں پر حاسد
داد گر کیوں ترے چہرے پہ غضب طاری ہے
مجھ پہ الزام کوئی اور نہ کرنا عائد
اک عبادت ہے مگر شہرِ وفا کے باسی
بس محبت میں نہ کہلائے کبھی وہ عابد
پھر سے دالان میں پھینکے ہیں کسی نے پتھر
کس کے آنگن پڑے سنگ ہوئے ہیں زائد

3
48
خوب ہے، بس گزارش کرنی تھی کہ تیسرے مصرعے کو مصرعِ مستعار کے طور پر لکھیئے "..." ( کاموں کے اندر)

ٹھیک ہے جناب ایسا ہی ہوگا ۔۔ باقی مطلع کے حوالے سے یہ عرض کرنا ہے کہ اگر مطلع نہ ہو تو شاعری غزل نہیں کہلائے گی؟

0
مطلع ہی تو غزل کا آغاز ہے۔