ہے اِس کا ملال اُس کو، ترقّی کا سفر طے |
کیوں میں نے کیا، کر نہ سکا وہ ہی اگر طے |
جو مسئلہ تھا اُن کا بہت اُلجھا ہؤا تھا |
کُچھ حِکمت و دانِش سے کِیا میں نے مگر طے |
ہو جذبہ و ہِمّت تو کٹِھن کُچھ بھی نہِیں ہے |
ہو جائے گا اے دوستو دُشوار سفر طے |
کِس طرز کا اِنساں ہے، نسب کیسا ہے اُس کا |
بس ایک مُلاقات میں ہوتا ہے اثر طے |
ہے کیسا نِظام اِس میں فقط جُھوٹ بِکے ہے |
مُنہ حق سے نہِیں موڑوں گا کٹ جائے گا سر طے |
اِک بار کی مِحنت تو اکارت ہی گئی ہے |
سو کرنا پڑا مُجھ کو سفر بارِ دِگر طے |
سمجھا نہ کسیؔ نے جو مِرے طرزِ بیاں کو |
بیکار گیا پِھر تو مِرا شعر و ہُنر طے |
ہے عزم، سفر میں جو پرِندوں کا مُعاون |
یہ کِس نے کہا کرتے ہیں یہ بازو و پر طے |
کِس کِس نے میرے ساتھ وفا کی یا خفا کی |
کر لے گا رشیدؔ آج مِرا دامنِ تر طے |
رشید حسرتؔ |
معلومات