ہے اِس کا ملال اُس کو، ترقّی کا سفر طے
کیوں میں نے کیا، کر نہ سکا وہ ہی اگر طے
جو مسئلہ تھا اُن کا بہت اُلجھا ہؤا تھا
کُچھ حِکمت و دانِش سے کِیا میں نے مگر طے
ہو جذبہ و ہِمّت تو کٹِھن کُچھ بھی نہِیں ہے
ہو جائے گا اے دوستو دُشوار سفر طے
کِس طرز کا اِنساں ہے، نسب کیسا ہے اُس کا
بس ایک مُلاقات میں ہوتا ہے اثر طے
ہے کیسا نِظام اِس میں فقط جُھوٹ بِکے ہے
مُنہ حق سے نہِیں موڑوں گا کٹ جائے گا سر طے
اِک بار کی مِحنت تو اکارت ہی گئی ہے
سو کرنا پڑا مُجھ کو سفر بارِ دِگر طے
سمجھا نہ کسیؔ نے جو مِرے طرزِ بیاں کو
بیکار گیا پِھر تو مِرا شعر و ہُنر طے
ہے عزم، سفر میں جو پرِندوں کا مُعاون
یہ کِس نے کہا کرتے ہیں یہ بازو و پر طے
کِس کِس نے میرے ساتھ وفا کی یا خفا کی
کر لے گا رشیدؔ آج مِرا دامنِ تر طے
رشید حسرتؔ

0
1
97
سبحان اللہ ۔
سر مشکل زمین تھی مگر کیا خوب نبھائی ہے آپ نے۔
سلامت رہیں

0