عشق میں ہوتا آیا ہے یہ ہم کو یوں ہو جانے دو
رکھ کر بھی دل کیا کرنا ہے اِس کا خوں ہو جانے دو
راہِ وفا میں اہلِ وفا کب عقل کی باتیں سنتے ہیں
ان کو کیا پروا اس کی ہو جا ئے جنوں ہو جانے دو
لاکھ بچایا ہم نے خود کو اس کے ہاتھوں ہار گئے
جادو یہ سر چڑھ کر بولے یہ بھی فسوں ہو جانے دو
بےکل ہو کر دن گزرے ہیں تارے گنتے راتیں بھی
دل کو چین ملا ہے اب کچھ دیر سکوں ہو جانے دو
اس کی قربت میں جا کر ہی پگھلیں گے جذبات مرے
دل میں آگ لگی ہے اِس کو اور فزوں ہو جانے دو
تم کیا جانو پیار میں کیا کیا کرنا پڑتا ہے قربان
فکر کرو تم اپنی میرا حال زبوں ہو جانے دو
طارق اس کا وعدہ ہے مضطر کی دعا وہ سُنتا ہے
ہو جاؤں سچ مُچ اُس کا گر اس سے کہوں ہو جانے دو

2
82
زبردست

0
شاہ رئیس شمالی صاحب اور صبا معظم صاحبہ ، پسندیدگی کا بہت شکریہ نوازش