جو بے نیازِ دید ہو اس سے حجاب کیا
گریہ ہی جس کی عید ہو اس پر عذاب کیا
توڑے ہوں اپنے ہاتھ سے جس نے سبو تمام
اس کی نظر میں جام کیا اور شراب کیا
سب نسبتیں غرور کی پامال ہو گئیں
کیا پوچھتے ہو میرا نسب کیا نصاب کیا
اے شیخ بے اثر ہیں تمہاری نصیحتیں
ہم بے کسوں پہ حشر میں ہوگا حساب کیا
رہتا ہے صبح شام تصور میں روبرو
اس یار بے نیاز کا شکوہ جناب کیا

2
154
اچھی غزل ہے

0
بےثک بہترین

0