| جو بے نیازِ دید ہو اس سے حجاب کیا |
| گریہ ہی جس کی عید ہو اس پر عذاب کیا |
| توڑے ہوں اپنے ہاتھ سے جس نے سبو تمام |
| اس کی نظر میں جام کیا اور شراب کیا |
| سب نسبتیں غرور کی پامال ہو گئیں |
| کیا پوچھتے ہو میرا نسب کیا نصاب کیا |
| اے شیخ بے اثر ہیں تمہاری نصیحتیں |
| ہم بے کسوں پہ حشر میں ہوگا حساب کیا |
| رہتا ہے صبح شام تصور میں روبرو |
| اس یار بے نیاز کا شکوہ جناب کیا |
معلومات