اے مسیحا نہیں تاثیر مسیحائی میں
روح کی اور گھٹن بڑھ گئی بھر پائی میں
کیسے لہجے تھے جو یوں توڑتے گزرےہیں مجھے
درد کس قدر ہے اے چپ تری گویائی میں
ہم نے سوچا تھا کہ گھل مل کے زرا کم ہوگا
رنج بڑھتا گیا لوگوں سے شناسائی میں
کیسے رکھیں وہ بھرم اپنی وَضَع داری کا
لمحہ لمحہ جو بکھرتے ہیں شکیبائی میں
تپتے احساس ادھوری سی تمنائیں ہیں
کون ٹھہرے گا بھلا اس دلِ صحرائی میں
یہ وہ آسیب جو ہر زی سے لپٹ جاتا ہے
جھانک کر دیکھ نہ اس عشق کی گہرائی میں
اسکی آنکھوں سے نہ جھیلوں کی مثالیں دینا
کتنے اترے ہیں سمندر اسی گہرائی میں
میں نے اس شخص کی الفت کا فسوں توڑ دیا
جیت سمجھا تھا وہ اپنی مری پسپائی میں
یوسفِ مصر نہیں وہ جو خریدا جائے
دَور پڑنے کا نہیں عشقِ زلیخائی میں

5
159
= اچھی غزل ہے جناب -
= کچھ باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا-
اے مسیحا نہیں تاثیر مسیحائی میں
روح کی اور گھٹن بڑھ گئی بھر پائی میں
== بھر پائئ اردو میں بطور اصطلاح نہیں استعمال ہوتا ہے - اس طرح انڈیا میں بولا جاتا ہے یہ غلط ہے

کیسے لہجے تھے جو یوں توڑتے گزرےہیں مجھے
درد کس قدر ہے اے چپ تری گویائی میں
== یہاں آپ نے قدر کو غلط باندھا ہے اس کا تلفظ ہے ق-در - آپ نے باندھا ہے قد- ر

یہ وہ آسیب جو ہر زی سے لپٹ جاتا ہے
== زی کا استعمال مرکب میں ہوتا ہے - آپ اسے مفرد استعمال نہیں کر سکتے -

یوسفِ مصر نہیں وہ جو خریدا جائے
دَور پڑنے کا نہیں عشقِ زلیخائی میں
== اس شعر میں ترسیل نہیں ہورہی ہے

یوسفِ مصر نہیں وہ جو خریدا جائے
دَور پڑنے کا نہیں عشقِ زلیخائی میں

مطلع بہت پسند آیا ۔ نہایت اچھی کوشش ہے ۔

مقطع....*

0
بہت شکریہ kashif Ali Abbas

0
بہت شکریہ آپ کی رہنمائی کا انشاءاللہ میں ضرور غور کروں گا
Arshad H Rashid

0