فریاد جو دل سے آتی ہے، یہ ساز ہے لب پر آنے دو |
دھیرے سے ستائے یہ من کو، اکھیوں سے نیر بہانے دو |
جب یادِ مدینہ آتی ہے، ہر رنگ پہ یہ چھا جاتی ہے |
اک عکس جو دل میں بنتا ہے، وہ نظر میں اب بس جانے دو |
وہ چھاتے قمقمے نور و ضیا، اس گنبدِ نوری کا نقشہ |
ہیں عجب نظارے صحن کے بھی، اے پیارے اندر آنے دو |
ہے روضہ حسیں جو نظروں میں، مجھے پلکوں کے بل اب چلنا ہے |
ہے ساتھ جو جنت روضہ سے، وہ نورِ حضوری آنے دو |
آرام بقع میں ہے جن کا، سرکار کے وہ بھی اپنے ہیں |
ہیں ارم باغیچے اس جا جو، کُل منظر ان سے آنے دو |
ہیں روشن طیبہ کی سڑکیں، اور نور و نور میں سب راہیں |
میں خوش ہوں نوری راہوں پر، بس گم انہیں میں ہی رہنے دو |
گر اجل بھی آئے رستہ میں، پھر دفن اسی جا کر دینا |
اس خاک کو پیارے قدموں سے، درِ اقدس تک تو آنے دو |
اے دنیا روک نہ اب رستہ، اس شہرِ مدینہ جانا ہے |
کچھ روز جو ہیں اس بستی میں، دلبر کے در پر رہنے دو |
آ بیٹھے ہیں اس مسجد میں، افطار کے لمحے آئے ہیں |
جو زم زم اور کھجوریں ہیں، یہ خوب مزے سے کھانے دو |
محمود!کے دل میں اٹھے ہوا، ہو وطن یہ طیبہ اے شاہا |
شب و روز مدینے میں گزریں، ہوں عاصی در پر رہنے دو |
معلومات