آسماں خاموش ہے خاموش ہے ارضِ حرم |
ہے مسلمانوں کی دنیا آج محرومِ کرم |
جو جفاکش تھے جہاں سے وہ تو رخصت ہو گئے |
عیش و آسائش کے خوگر ، رہ گئے اہلِ نعم |
خانہ ویرانی مگر کہ اپنے ہاتھوں ہی ہوئی |
کر گیا خاکسترِ در اک چراغِ صبحدم |
ہو گئے محفل میں تنہا سوختہ ساماں ہوئے |
نا ہی دنیا خوب تر نا خوب ہے عدن و ارم |
بت پرستوں کے مظالم سے مجھے کیا ہو گلہ |
حق پرستوں کی خموشی ہے یہ بالاۓ ستم |
چھوڑ دی جب سے مسلماں نے روایاتِ خلیلؔؑ |
ہو گیے بے خوف ان سے بت گر و اہلِ صنم |
برہمن زادوں کی یہ ہے کوششِ پیہم کہ وہ |
ہند کے بت خانوں کو اک دن بنا ڈالیں حرم |
کس قدر کوشاں ہیں مذہب کے لئے ہندی نژاد |
لے گئے ہیں مسلموں سے چھین کر کہنہ شیم |
فرقہ بندی ، رنگ و نسل و ذات میں الجھے ہوئے |
یہ مسلماں کیوں رکھیں گے اپنے مذہب کا بھرم |
کیوں انہیں ہنگامۂ عالم کی کچھ پروا نہیں |
کائناتِ رنگ و بو کے یہ بھیانک زیر و بم |
کیوں انہیں احساسِ آثارِ مصیبت کچھ نہیں |
ہند کے آفاق پر جو چھا رہی ہے دمبدم |
سلطنت بھی چھن گئی ہے چھن رہا ہے دین بھی |
دین و دنیا سے ہوئے جو اس قدر بیگانے ہم |
ابنِ قاسؔم کی توقع عالمِ اسلام سے |
کررہی ہے پھر سے مضطر آج میری چشمِ نم |
آہ ! لیکن کون قلبِ مضطرب کو دے سکوں |
عزم کی تلوار سے کر ریزہ ریزہ کوہِ غم |
جبر و استبداد سے تو اپنا یارانہ رہا |
حوصلوں میں جان ہے اب بھی ہے باقی ہم میں دم |
کوئی رہبر راہ دکھلانے نہیں پھر آۓ گا |
راہرو خود ہی اٹھا تو جانبِ منزل قدم |
تیری دیرینہ روش کا ہے جہاں کو انتظار |
منتظر ہے پھر تری یلغار کا شاہؔی ! عجم |
معلومات