منہ طمانچوں سے ٹماٹر ہو گیا
عشق کے ہاتھوں کچومر ہو گیا
عشق میں بیباک تھے پہلے پر اب
برہمی کا یار کی ڈر ہو گیا
مفلسی کی اک علامت تھی کبھی
اب پھٹے کپڑوں کا کلچر ہو گیا
شیخ کا چہرہ تھا، بس دو چار بال
خیر سے اب دیسی کیکر ہو گیا
توبہ توبہ شیخ اور کرتے گناہ
ہاں! مگر جو جو میسّر ہو گیا
ہم سخنور کے سخنور ہی رہے
چھوکرا موچی کا ٹیلر ہو گیا
حضرتِ تنہاؔ کا لاشہ کیا اٹھا
کوچۂ جاناں معطّر ہو گیا

105