| تیرے طفیل دشت میں دریا ملا ہمیں |
| یعنی کہ زندگی کا کنارا ملا ہمیں |
| ہم دھوپ کے ستائے پرندے تھے یا نبی ص |
| تیرے ہی در پہ پیڑ کا سایہ ملا ہمیں |
| اتنا ملا کہ گن ہی نہیں پائے، نعمتیں |
| اپنی بساط سے بھی زیادہ ملا ہمیں |
| فی الفور کربلا کی طرف گاڑی تیز کی |
| جیسے ہی اِس سفر کا اشارہ ملا ہمیں |
| کرب و بلا کے دشت میں بکھرے پڑے تھے ہم |
| اپنا ہی سر بدن سے جدا سا ملا ہمیں |
| ہم نے در ِ بتول سے پایا ہے رمز غم |
| کرب و بلا میں عشق کا کعبہ ملا ہمیں |
| سب کے لبوں پہ ایک ہی جملہ تھا، العطش |
| صحرا سے جو بھی لوٹا وہ پیاسا ملا ہمیں |
| یہ پوچھنے کی بات نہیں،کیا نہیں ملا |
| ارشد سراغ پوچھ کہ کیا کیا ملا ہمیں |
| ارشد سراغ |
معلومات