اب شام ڈھلی بڑھنے لگے رات کے سائے
میں سو کے اٹھوں گا کوئی یہ آ کے بتائے
پرکھے گئے کرگس کے ہی معیار پہ ہم تو
شاہین تھے وہ ہم کو سمجھ ہی نہیں پائے
بے ضبط رہی ہم سے محبت کی گواہی
آنسو کبھی میں نے کبھی اس نے بھی چھپائے
مظلوم کا ظالم سے محبت کا سنا تھا
خواہش ہے کہ آ کے مجھے وہ اور ستائے
معلوم تھا مجھ کو کہ محبت میں فنا ہے
جو آگ لگی روح میں اب کون بجھائے
کیوں توڑا مجھے ڈھال تھا ہر لمحہ تمہاری
اب کون تمہیں آ کے زمانے سے بچائے
ہر ظلم کیا اس نے مری جان پہ شاہدؔ ! !
حالت مری دیکھی تو پھر آنسو بھی بہائے

1
22
ع
آنسو کبھی میں نے کبھی اس نے بھی چھپائے

واہ۔

0