حجاب میں حبیب ہے، یہ عشق بھی عجیب ہے
کہ سامنے رقیب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے
کبھی اِسے بلاؤ تم ، کوئی غزل لکھاؤ تم
بہت بڑا ادیب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے
پڑا ہوا ازل سے ہے سراغِ دل کے پیچھے جو
یہی وہ عندلیب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے
مزہ جو درد میں ہے وہ کہیں مجھے ملا نہیں
یہی مرا نصیب ہے، یہ عشق بھی عجیب ہے
یہ عاشقوں کا مشغلہ یہ عارفوں کا راز ہے
حکیم ہے اَریب ہے، یہ عشق بھی عجیب ہے
عبادتوں میں رات دن گزارتے تھے جو کبھی
گلے میں اب صلیب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے
فنا ہوئے ہو عشق میں تو کوئی غم نہیں حیاتؔ
بقا بھی عن قریب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے

1
275
اللہ کرے زورِ قلَم اور زیادہ