حجاب میں حبیب ہے، یہ عشق بھی عجیب ہے |
کہ سامنے رقیب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے |
کبھی اِسے بلاؤ تم ، کوئی غزل لکھاؤ تم |
بہت بڑا ادیب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے |
پڑا ہوا ازل سے ہے سراغِ دل کے پیچھے جو |
یہی وہ عندلیب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے |
مزہ جو درد میں ہے وہ کہیں مجھے ملا نہیں |
یہی مرا نصیب ہے، یہ عشق بھی عجیب ہے |
یہ عاشقوں کا مشغلہ یہ عارفوں کا راز ہے |
حکیم ہے اَریب ہے، یہ عشق بھی عجیب ہے |
عبادتوں میں رات دن گزارتے تھے جو کبھی |
گلے میں اب صلیب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے |
فنا ہوئے ہو عشق میں تو کوئی غم نہیں حیاتؔ |
بقا بھی عن قریب ہے ،یہ عشق بھی عجیب ہے |
معلومات