میں خفاہوں خود مری ذات سے مجھے تجھ سے کچھ بھی گلہ نہیں |
مرے قد سے اونچے کو میں نے چاہ لیا جو مجھ کو ملا نہیں |
اسے چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھ اٹھاۓ رب کے حضور میں |
اسے آس میرے حصول کی مگر اس کے لب پہ دعا نہیں |
میں تھا محو خواب وہ آیا اور مرے دل سے لگ کے مجھےکہا |
مری روح کو نہ عزیز ہوں تری ایسی کوئی ادا نہیں |
چلو مانا میں ہوں نہتا اور ہیں اس کے ہاتھ میں تیغ و بم |
مگر اس سے مجھ کو ہو کیسا ڈر وہ بشر ہے کوئی خدا نہیں |
کسی راہِ عشق میں شاید اس کو دغاملا ہے گمان ہے |
وہ ہنسایا کرتاتھا رات دن مگر آج خود وہ ہنسا نہیں |
مرے سامنے سے گزرتے وقت سلام عرض کیا مجھے |
اسے جتنا سوچا تھا میں برا وہ بیچارہ اتنا برا نہیں |
سنو بات یونسؔ ابھی سے نا پھنسو عشق وشق کے جال میں |
یہ وہی مرض ہے کہ جس کی سارے زمانے بھر میں دوا نہیں |
معلومات