میں خفاہوں خود مری ذات سے مجھے تجھ سے کچھ بھی گلہ نہیں
مرے قد سے اونچے کو میں نے چاہ لیا جو مجھ کو ملا نہیں
اسے چاہئے کہ وہ اپنے ہاتھ اٹھاۓ رب کے حضور میں
اسے آس میرے حصول کی مگر اس کے لب پہ دعا نہیں
میں تھا محو خواب وہ آیا اور مرے دل سے لگ کے مجھےکہا
مری روح کو نہ عزیز ہوں تری ایسی کوئی ادا نہیں
چلو مانا میں ہوں نہتا اور ہیں اس کے ہاتھ میں تیغ و بم
مگر اس سے مجھ کو ہو کیسا ڈر وہ بشر ہے کوئی خدا نہیں
کسی راہِ عشق میں شاید اس کو دغاملا ہے گمان ہے
وہ ہنسایا کرتاتھا رات دن مگر آج خود وہ ہنسا نہیں
مرے سامنے سے گزرتے وقت سلام عرض کیا مجھے
اسے جتنا سوچا تھا میں برا وہ بیچارہ اتنا برا نہیں
سنو بات یونسؔ ابھی سے نا پھنسو عشق وشق کے جال میں
یہ وہی مرض ہے کہ جس کی سارے زمانے بھر میں دوا نہیں

0
8