| ندامت کے آنسو بہاتا ہے کوئی |
| سہارا مدینے سے آتا ہے کوئی |
| ملاقات کی چاہ میں جانِ جاناں |
| بڑا دل ہی دل میں تڑپتا ہے کوئی |
| بلایا ہو ان نے مگر پھر بھی کیسے |
| وُوں جانے کی ہمت جٹاتا ہے کوئی |
| ترے یار کا ذکر اے میرے خدایا |
| جو آتا تو آنکھیں جھکاتا ہے کوئی |
| میں دردوں میں لیتا ہوں نامِ محمد |
| تو زخموں پہ مرہم بھی رکھتا ہے کوئی |
| وسیلہ محمد کا دے دے کے لوگو |
| بھکاری غنی ہو کے آتا ہے کوئی |
| قرابت سبھی منقطع جائیں گی پر |
| رہے گا جو قائم وہ رشتہ ہے کوئی |
| میں آواز دوں گا جو گرنے لگوں تو |
| رُکو امتی میرا رہتا ہے کوئی |
| نہیں ہے تری شکل سرمد لکھے تو |
| قسم سے پکڑ کر لِکھاتا ہے کوئی |
معلومات