ندامت کے آنسو بہاتا ہے کوئی
سہارا مدینے سے آتا ہے کوئی
ملاقات کی چاہ میں جانِ جاناں
بڑا دل ہی دل میں تڑپتا ہے کوئی
بلایا ہو ان نے مگر پھر بھی کیسے
وُوں جانے کی ہمت جٹاتا ہے کوئی
ترے یار کا ذکر اے میرے خدایا
جو آتا تو آنکھیں جھکاتا ہے کوئی
میں دردوں میں لیتا ہوں نامِ محمد
تو زخموں پہ مرہم بھی رکھتا ہے کوئی
وسیلہ محمد کا دے دے کے لوگو
بھکاری غنی ہو کے آتا ہے کوئی
قرابت سبھی منقطع جائیں گی پر
رہے گا جو قائم وہ رشتہ ہے کوئی
میں آواز دوں گا جو گرنے لگوں تو
رُکو امتی میرا رہتا ہے کوئی
نہیں ہے تری شکل سرمد لکھے تو
قسم سے پکڑ کر لِکھاتا ہے کوئی

1
20
ماشاءاللہ بہت خوب سرمد صاحب

میں آواز دوں گا جو گرنے لگوں تو
رُکو امتی میرا رہتا ہے کوئی

سبحان اللہ