آنکھیں ہیں کَتَّھئی اور چہرہ قمر لگے
اتنا حسیں کہ اس کو، خود کی نظر لگے
یہ شاعری ذریعہ ہے ایک، میں تو بس
یہ چاہتا ہوں تجھ کو، میری خبر لگے

0
2
26
معزرت خدا کو دن لگنے والے شعر میں اگر تبدیلی ہو سکتی ہے تو کر لیں یہ شریعت سے ٹکرا رہا ہے

0
زین صاحب آپ نے پوچھا ہے تو میں لکھ رہا ہوں - آپ کے ہاں الفاظ و اصطاحات کے استعمال کا ادراک کم کم ہے - یہ مطالعے سے ہی آتا ہے - یاد رکھیں ہر لفظ اور ہر اصطلاح کا ایک مقام ہوتا ہے سیاق و سباق ہوتا ہے اس سے ہٹ کر یا اسے جانے بغیر استعمال کرنا - کم علمی کی دلیل ہے -
ٓٓٓٓٓٓٓٓ------------------------
یہ چاہتا ہوں تجھ کو، میری خبر لگے

خبر لگنا نہیں ہوتا - خبر ملنا ہوتا ہے یا خبر آنا ہوتا ہے - مگر یہ آپ کی ردیف نہیں - یہ مصرع غلط ہوگا -
--------------------------------------------------------------------


جو چاہو وہ ملنا آسان نہیں ہوتا
پر کوشش میں کوئی نقصان نہیں ہوتا
چبتے ہیں کانٹے اکثر بیچ سفر لیکن
== لفظ ہے چُبھتے نہ کہ چبتے - دوسری بات کہ اکثر کے ساتھ بیچ سفر نہیں آئیگا - اکثر کا مطب بارہا ہوتا ہے اور بیچ سفر ایک خاص مقام یا دروانیے کا استعارہ ہے - تو یا تو کہیں بیچ سفر میں کانٹے چبھتے ہیں یا کہیں اکثر کانٹے چبھتے ہیں - بیچ سفر میں اکثر اس لیئے بھی غلط ہے کیونکہ کانٹے تو سفر میں کہیں بھی چبھ سکتے ہیں - بیچ سفر میں ہی کیوں؟

یوں محبت میں غم کا اعلان نہیں ہوتا

ہو جاتی ہیں عابد سے بھی غلطی اکثر
ماضی تو انساں کی پہچان نہیں ہوتا
== دونوں مصرعوں میں زمانی مطابقت نہیں ہے - آپ کہہ رہے کہ عابد ثخص سے بھی غلطی ہو سکتی ہے یعنی زمانہ حال میں آگے آپ اس کے ماضی کاحوالہ دے رہے ہیں کہ اس سے اگر غلطیاں ہوئیں تھیں تو بھول جائیں - گویا غلطی وہ اب کر رہا ہے اور بھولیں ہم اس کے ماضی کو - یہ کوئی بات ہوئی کیا؟


انساں سے ہوتا ہے انسان پریشاں اور
انساں سے بڑا کوئی شیطان نہیں ہوتا
کرتا ہے شکوہ رب سے تو نے دیا کیا ہے
== یہ شکوہ میں نے نہیں سنا کہ انسان رب سے کرتا ہو - انسانوں سے ہی اس قسم کا شکوہ کیا جاتا ہے -

اور جو حاصل ہے اس پر دھیان نہیں ہوتا

------------------------------------

یہاں مضمون پہ توجہ دیں

کیا خبر وہ کدھر جاتے ہیں
جیتے جی ہی جو مر جاتے ہیں
== جیتے جی مر جانے کی اصطلاح حالات کے مارے ہوئے لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے - ایسے لوگ کہیں جاتے نہیں سامنے ہی ہوتے ہیں تبھی تو ہم انھیں جیتے جی مرے جانے والے کہتے ہیں - تو کیا خبر وہ کدھر جاتے ہیں کا یہاں محل نہیں ہے

تیرے در سے نکالے ہوئے
سر جکائے بکھر جاتے ہیں
== بکھر جانے کا مطلب ہوا سب کو ایک ساتھ ہی در سے نکالا تھا اور یہ مجمع باہر نکل کو کہیں بکھر گیا - ایسا تو آپ یقینا نہیں کہنا چاہ رہے ہیں - اس سے بہتر ہے آپ لکھیں - سر جھائے گزر جاتے ہیں -

کیا کریں ہم کہ اہلِ وفا
وعدہ کرکے مکر جاتے ہیں

اس طرح کے اشعار میں اہل وفا کے ذکر کے بعد بے وفائی کرنے والوں کا زکر استثنا کے طور پہ ہوتا ہے - آپ نے تو کل اہلِ وفا کو ہی وعدہ کر کے مکرنے والا قرار دے دیا تو پھر اہل وفا کون ہوئے ؟
لیکن اگر آپ نے یہی کہا ہے تو آپ کی مرضی -

ٓٓ-----------------------
میرا خیال ہے یہ مثالیں کافی ہیں آپ تک بات پہنچانے کے لیے -



0