دل کے قصے ہیں بیاں سے بڑھ کر
فریبِ سود و زیاں سے بڑھ کر
شعر کہنا کوئی مجبوری ہے؟
نا سپاسی ہے خزاں سے بڑھ کر
خامشی اپنا اثر رکھتی ہے
وہم سے دور گماں سے بڑھ کر
ہے گراں بار یہ دنیا داری
عشق کے کوہ گراں سے بڑھ کے
درد کے سلسلے ہیں بے پایاں
بندشِ کون و مکاں سے بڑھ کر

6
246
خامسی اپنا اثر رکھتی ہے
وہم سے دور گماں سے بڑھ کر

0
بہتر ترین شعروں میں سے مرا پسندیدہ

0
جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں؟

بے دھڑک فرمائیں ارشد راشد صاحب

شکریہ سر۔ مجھے اس غزل میں بعض باتیں سمجھ نہیں آرہی ہیں انکا ذکر کرتا ہوں

دل کے قصے ہیں بیاں سے بڑھ کر
حاصلِ سود و زیاں سے بڑھ کر
--- سود کا تو حاصل ہوتا ہے زیاں کا کیا حاصل ہوتا ہے؟ میری دانست میں اردو شاعری میں حاصلِ سود و زیاں کی اصطلاح نہیں استعمال ہوتی۔ اگر ہوتی ہے تو کوئ مثال دیجہۓ

شعر کہنا کوئی مجبوری ہے؟
نا سپاسی ہے خزاں سے بڑھ کر
نا سپاسی کا مطلب ہے نا شکری۔ تو خزاں کیسے نا شکری ہوئ اور اگر ہے بھی تو اسکا مجبوری سے کیا تعلق ہے
اس عیب کو تعقید معنوی کہتے ہیں

خامشی اپنا اثر رکھتی ہے
وہم سے دور گماں سے بڑھ کر

وہم و گمان کا خامشی سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو آپ نے نہیں بتایا- بات بلکل غیر واضح ہے

درد یوں ہو گئے ہیں آفاقی
بندش کون و مکاں سے بڑھ کر

سر بندش ِ کون و مکاں ہی تو آفاقی ہوتا ہے۔ اگر کوئ چیز بندش ِ کون و مکاں سے بڑھ جاۓ یعنئ ٹائم اینڈ اسپیس سے تو وہ آفاق سے یا کائنات سے باہر کی چیز ہوجاتی جبکہ آپ کہ رہے ہیں درد آفاقی ہو گۓ اور پھر
موازنہ کر رہے ہیں آفاق سے ہی۔ یہ تو محض لفظوں کا گورکھ دھندہ ہوا۔

یوں سمجھیں کہ کون ومکاں سے باہر کی چیز غیر کائناتی یا غیر آفاقی ہوتی ہے آپ کہ رہے ہیں درد آفاقی ہو گے ہیں غیر آفاقی سے بڑھ کے - یہ تو ایک درجہ کم ہوا نہ کے زیادہ۔

0
ارشد رشید

0