ابھی تلک بلند ہے عَلَم حسین کا
سبھی غموں سے بڑھ رہا ہے غم حسین کا
اٹھا جوان لاش پھر تجھے پتہ چلے
پتہ چلے کہیں کسے، الم حسین کا
پکار تھی علی علی، علی علی علی
جہاں گیا جدھر اٹھا قدم حسین کا
شکستِ دشمنانِ اہلِ بیت ہے یہی
شکست ہے، کہ سر ہوا نہ خم حسین کا
جو لکھ دیا حسین نے سند کہیں اسے
کہ لوح ہے حسین کی، قلم حسین کا
فقیر نے دعا یہ دی ، سلامتی رہے
خدا کی رحمتیں ہوں اور کرم حسین کا
میں نام لوں حسین کا تو حوصلہ ملے
تبھی کروں میں ذکر دم بدم حسین کا
اسے میں دل کہوں کہ مضطربؔ میں جاں کہوں
کہ جس پہ نام ہو گیا رقم حسین کا

1
123
قربان

0