مجھے یہ لوگ خطا کار اچھے لگتے ہیں
مجھے ولی بھی گنہگار اچھے لگتے ہیں
اب دشمنوں پہ بھروسہ نہیں رہا مجھ کو
کہ دشمنوں میں روادار اچھے لگتے ہیں
ہر ایک کام یہاں فن ہے اس لیے مجھ کو
ہر ایک کام میں فنکار اچھے لگتے ہیں
ہر ایک چیز پہ سمجھوتا دوستی کے سوا
کہ دوست صرف وفادار اچھے لگتے ہیں
سکوت روح میں اتنا بڑھا کہ اب شاہد
کہ گھر کے اب در و دیوار اچھے لگتے ہیں

1
52
ڈاکٹر صاحب! آخری شعر میں "کہ" کا دونوں مصرعوں میں استعمال شعر کی خوبصورتی کو ماند کر رہا ہے۔ اگر کچھ یوں ہو تو کیا خیال ہے:

سکوت روح میں اتنا بڑھا ہے اب شاہد
کہ گھر کے اب در و دیوار اچھے لگتے ہیں

0