ایسے ہر پیڑ کو جڑ سے ہی اکھڑ جانا ہے
جس نے ٹھانی ہے کہ آندھی میں اکڑ جانا ہے
اپنی جاگیر سمجھنا نہ کبھی ٹہنی کو
پتیوں شاخ سے تم سب کو ہی جھڑ جانا ہے
میں نے دنیا کو فقط اتنا ہی جانا لوگوں
بے وفا یار ہے آخر کو بچھڑ جانا ہے
عشق کے نام پہ بستی میں بساؤں کیوں کر
مجھ کو معلوم ہے جب بس کے اجڑ جانا ہے
مختصر سا ہے سفر اپنا جہاں میں یاروں
خاک سے آئے ہیں پھر خاک میں گڑ جانا ہے
کاش یہ وقت ہمیں پھر سے بنا دے بچہ
ماں کے آنچل میں ہمیں پھر سے سکڑ جانا ہے
ہر طرف پھیلی ہوئی ہے جو برائی طیب
نفس کے ہاتھ میں انساں کا جکڑ جانا ہے

2
68
طیب صاحب بہت کمال کا تخیل اور تخلیق ہے، کاش پہلے مصرعے میں "اکھڑ" کے وزن کا کوئی علاج میرے پاس ہوتا۔ بہرحال بہت خوب۔ بہت عرصے بعد یہاں کچھ واقعی داد دینے کے قابل دِکھا ہے۔

بہت بہت شکریہ محترم💕💕💕

0