احساں سے بری کر دو، کڑوا سچ نگلنے دو
رکھ لو تم خدا اپنا، میرا مجھ کو گھڑنے دو
پُوجا تھا روایت کو، کُہنہ تر حِکایت کو
عِلم تھا وہ بوسیدہ، خستہ اور نادیدہ
آبِ خِضر لاؤ اب، قوم کو پِلاؤ اب
گہری فکر ہے میری، اِس کا رنگ چڑھنے دو
چڑھ جا میرے شانوں پر، ٹھوس پائیدانوں پر
دیکھ آبشاروں کو، کاسنی بہاروں کو
چوٹی کرنی سر ہے وہ، پالے میں چھپی ہے جو
دھوپ تو نکلنے دو، برف کو پگھلنے دو
بہتری ہو تم سب کی، اور تمہاری نسلوں کی
خود کو روکتے تھے گو، بچوں کو تو لینے دو
لا زوال صنعت ہو، با کمال جرات ہو
توشہ لے لو میرا تم، بھوک میری رہنے دو
پکڑو آسماں کو تم، وقت اور مکاں کو تم
مجھ کو دیکھنا ہے وہ، دوسری طرف ہے جو
مجھ کو جینے دو مجھ میں، منفرد حقیقت میں
عُنفواں مُقفل تھا، باقی پل تو جینے دو
رکھ لو تم خدا اپنا، میرا مجھ کو گھڑنے دو
----------٭٭٭----------

0
3
187
خدا والا شعر معنی طلب ہے وضاحت طلب ہے اکثر شاعری میں آپ کی خیال ناقص ہے مگر روانی اچھی ہے

0
آپکی توجہ کیلئے مشکور ہوں کاشف،
بہت خوب نکتا اُٹھایا ہے
در حقیقت
پوری نظم اس خیالِ واحد کی ترجمانی اور شرح بیاں کر رہی ہے۔
پرانی شراب نئے جام میں پیش کرنا مروج ہے
مگر -----
مئے تازہ کے لئے زائقہ کی ترشی
دراصل اسکی ندرت کی دلیل ہے!
خوش رہیں سدا آپ

0
درستگی برائے لفظ
نکتہ

0