ترا عشق تھا کوئی حرز جاں مرے جسم و جاں میں اتر گیا
کوئی موج تھی جو ٹھہر گئی کوئی طوفاں تھا جو گذر گیا
تھا وہ ذوق پھر یا خمار تھا یونہی سر پہ میرے سوار تھا
میں جو رتجگوں سے ملا نہ تھا ترے عشق سے ہی بکھر گیا
ترے ساتھ جینا محال تھا ترے بعد مرنا کمال تھا
تھی عجیب حالتِ زندگی کبھی جی اٹھا کبھی مر گیا
غمِ زندگی غمِ عاشقی مری تشنگی مری سادگی
مرے پاس تھا مرا حوصلہ مرے ہاتھ سے وہ ہنر گیا
اسی موڑ پر اسی راہ پر کوئی آج چپکے سے جل گیا
ترے نام سے تری ذات پر مرا در گیا مرا گھر گیا
مرے چارہ گر مرے ہم نوا ہیں رقیب تجھ کو عزیز تر
تری اس ادا پہ اے دلربا میں بکھر گیا میں اجڑ گیا
تری بے رخی مری بے کسی مری زندگی تری دل لگی
جو نہ سن سکا مری عرضیاں مرے نام سے ہی مکر گیا

2
157
بہت خوب کیا ہی کہنے،،،

بہت شکریہ میرے محترم