چلا تھا جس جگہ سے پھر وہیں پر آ گیا ہے دل
اب اس دنیا کے چکّر سے بہت اُکتا گیا ہے دل
جہاں میں تو ازل سے ہی غلط سمجھا گیا ہے دل
ہمیشہ عقل کی میزان پر پرکھا گیا ہے دل
کبھی وارا کبھی توڑا کبھی لوٹا گیا ہے دل
بتاؤں کیا، تمھیں کیا کیا ستم سہتا گیا ہے دل
تری محفل میں جانِ جاں مرا پگلا گیا ہے دل
حجاب اُٹھنا ترا، توبہ کہ حشر اٹھا گیا ہے دل
خداوندا بچا، یہ اب کہاں الجھا گیا ہے دل
وہ میری جان کا دشمن ہے جس پر آ گیا ہے دل
یہاں ہے دینِ احمد اور وہاں دنیا کی ہے لذّت
اِدھر کھینچا گیا ہے دل اُدھر اڑتا گیا ہے دل
بھری دنیا میں لاکھوں دل ہیں تو نے ہی کہا تھا نا
بتا مرشد کہ پھر پتّھر سے کیوں ٹکرا گیا ہے دل
ہزاروں مسجدیں ویراں پڑی ہیں اس زمانے میں
حیاتؔ اب میکدے سے اُٹھ بہت بہکا گیا ہے دل

0
1
87
زبردست واااااہ

0