کبھی جذبات سے لڑتی کبھی لمحات سے لڑتی
وہ اک مفلس کی بیٹی ہے جو ہر حالات سے لڑتی
بہت سپنے سجوتی ہے اچانک دفن کر دیتی
وہ دن کو کاٹ لیتی ہے مگر پھر رات سے لڑتی
کبھی ماں باپ کی حالت پہ وہ افسردہ ہو جاتی
سجاکے اشک آنکھوں میں بھری برسات سے لڑتی
ہزاروں غم چھپا کے مسکرانے کا ہنر رکھتی
زمانے سے ملے ہر زخم ہر صدمات سے لڑتی
رچا کے گھر میں شادی اپنی گڑیا کی وہ بے چاری
بہت سہمی سی لگتی ہے کسی خطرات سے لڑتی
کسی مفلس کے گھر یا رب ! کوئی بچی نہ پیدا ہو
دعائیں اس طرح کر کے وہ اپنی ذات سے لڑتی
خودی سے بیخودی میں اے تصدق بڑبڑاتی ہے
وہ پہلے بات کہتی ہے اسی پھر بات سے لڑتی

2
202
شاندار

0
نوازش