میں ترے پیشِ نظر گو پسِ منظر ہوتا
مجھ کو حسرت ہی رہی میں بھی قلندر ہوتا
میں فلک پر جو چمکتا ہوا اختر ہوتا
اثر انداز تِرا کچھ تو مقدّر ہوتا
تو نہ ملتا تو کسی قیس کا مظہر ہوتا
تُجھ کو پاتا تو مقدّر کا سکندر ہوتا
جاں لُٹانے کا سبق پیار میں ازبر ہوتا
میں جو دنیا میں محبّت کا پیمبر ہوتا
وہ چلا جاتا وہاں تک جہاں امبر ہوتا
طارق اس راہ میں ہوتا جہاں دلبر ہوتا

0
2
179
خیال سطحی لگا اور اشعار میں ربط نہیں تھا ۔ جیسے وزن پورا کرنے کو ردیف قافیہ ملے ہیں ۔کوشش جاری رکھو

0
ہر شعر ہر ایک کے لئے نہیں ہوتا

0