ذات میں زندان ہوتے جا رہے ہیں
حشر کے سامان ہوتے جا رہے ہیں
لوگ بوڑھے ہو کے دانا ہو رہے ہیں
اور ہم نادان ہوتے جا رہے ہیں
اب تو رشتوں میں تفاوت بڑھ گئی ہے
شہر اب ویران ہوتے جا رہے ہیں
وہ خدا کے روپ میں آنے لگے ہیں
جب سے ہم انسان ہوتے جا رہے ہیں
خواہشیں جب منزلوں کی ترک کر دیں
راستے آسان ہوتے جا رہے ہیں
زندگی کو جب سے ہم سمجھے ہیں شاہدؔ
ہم فقط امکان ہوتے جا رہے ہیں

1
44
اعلیٰ