سبز گنبد کو دیکھا پگھل میں گیا
ذات اپنی کو لے کے مچل میں گیا
خود میں رہنا بڑا ہی گراں ہو گیا
خود کے اندر سے خود ہی نکل میں گیا
باتیں ساری دھری کی دھری رہ گئیں
وہ ارادہ جو کر کے اٹل میں گیا
آپکی ہی نظر کا کرم ہے رہا
جو خطاکار ایسے بدل میں گیا
اے مؐحمد یہ احسان ہے آپ کا
ایسے طوفان میں جو سنبھل میں گیا
مجھ کو اپنی کوئی بھی خبر نہ رہی
ایسے سانچے میں جا کے جو ڈھل میں گیا
یہ تخیل ہمایوں ارادہ بنا
حاضری کو اکیلا نکل میں گیا
ہمایوں

1
15
ماشا اللہ

0