ہر کوئی ہی بے تاب لگتا ہے
کار ہستی خراب لگتا ہے
آنکھ میں اس قدر ہے پانی اب
دل مرا زیر آب لگتا ہے
کھائے ہوں جس نے دھوکے ہر پل ہی
اس کو دریا سراب لگتا ہے
بن ترے جو گزرتا ہے میرا
مجھ کو وہ پل عذاب لگتا ہے
تیری قربت میں بیتا ہر لمحہ
ایک دلکش سا خواب لگتا ہے
اک بے کلی سی ہے ہواؤں میں
آنے کو انقلاب لگتا ہے
میں نے کی ہیں جو نیکیاں اب تک
سکوں ان کا ثواب لگتا ہے

0
6
225
کلام اچھا ہے، صرف دو باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا:

1۔ "دل مرا زیر آب لگتا ہے" میں زیر آب کی جگہ زیرِ آب ہونا چاہیے، یہاں "زیر" میں "ر" کی زیر شاید ٹائپ کرتے ہوئے لکھنے سے رہ گئی ہے۔
2۔ "آنے کو انقلاب لگتا ہے"، اس مصرعہ پہ نظر ثانی فرمائیں، مثال کے طور پہ یوں "آئے ہے انقلاب، لگتا ہے" یا "آئے گا انقلاب، لگتا ہے"

بہت نوازِش عامر صاحب۔

0
عامر صاحب نے اچھی باتیں کی ہیں۔ ایک بات زیر کے بارے میں: اب آپ زیر _ لکھ کر بھی اضافت ظاہر کر سکتے ہیں۔ اگرچہ میں اس کو معیوب سمجھتا ہوں لیکن اکثر موبائل کیبورڈز پر زیر کی سہولت نہیں ہوتی تو یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑا۔

0
سید ذیشان اصغر صاحب کیا پوسٹ ڈیلیٹ کی جا سکتی ہے؟

0
@Younis246 ڈیلیٹ تو نہیں ہو سکتی۔ البتہ تدوین کا آپشن شامل کر دیا جائے گا۔ تاکہ اشعار کو مزید نکھارنا ممکن ہو :)

0
بہت نوازش۔

0