| جاتے جاتے اِک نظر سے رہنُمائی کر گئے |
| جلوۂ جاناں تلک میری رَسائی کر گئے |
| جِن کے حُسنِ ناز سے برسوں رَہے ہم بے خبر |
| اِک نِگاہِ ناز سے وہ آشنائی کر گئے |
| کون جانے کب تلک وہ کَنزِ مَخفی ہی رَہے |
| پھر اچانک چار سُو جلوہ نُمائی کر گئے |
| دِل کے خالی ظَرف میں وہ روشنائی بھر گئے |
| نُور بن کے میرے دِل میں خُود سِمائی کر گئے |
| عکسِ جاناں دیکھتا ہوں مَن میں اپنے جَلوہ گَر |
| میرے مَن کے آئینے کی وہ صَفائی کرگئے |
| پائے ساقی کا ہی دھوون مِثلِ جامِ خُلد ہے |
| سالِکِ نوخیز کی یوں رہنُمائی کرگئے |
| اِک تَجلّی سے ہی میرا جَل گیا نازُک سا دِل |
| دِل کے بدلے نام میرے کُل خُدائی کرگئے |
| غَیر کا تو وَہم بھی دِل میں کبھی لائے نہیں |
| عاشقانِ لَا اِلٰہ یوں پارسائی کر گئے |
| خالِق و مخلوق کا رِشتہ ہے کیسا اے غُلام |
| یَا صَمَد کے نَعرہ سے عُقدہ کُشائی کر گئے |
معلومات