جاتے جاتے اِک نظر سے رہنُمائی کر گئے
جلوۂ جاناں تلک میری رَسائی کر گئے
جِن کے حُسنِ ناز سے برسوں رَہے ہم بے خبر
اِک نِگاہِ ناز سے وہ آشنائی کر گئے
کون جانے کب تلک وہ کَنزِ مَخفی ہی رَہے
پھر اچانک چار سُو جلوہ نُمائی کر گئے
دِل کے خالی ظَرف میں وہ روشنائی بھر گئے
نُور بن کے میرے دِل میں خُود سِمائی کر گئے
عکسِ جاناں دیکھتا ہوں مَن میں اپنے جَلوہ گَر
میرے مَن کے آئینے کی وہ صَفائی کرگئے
پائے ساقی کا ہی دھوون مِثلِ جامِ خُلد ہے
سالِکِ نوخیز کی یوں رہنُمائی کرگئے
اِک تَجلّی سے ہی میرا جَل گیا نازُک سا دِل
دِل کے بدلے نام میرے کُل خُدائی کرگئے
غَیر کا تو وَہم بھی دِل میں کبھی لائے نہیں
عاشقانِ لَا اِلٰہ یوں پارسائی کر گئے
خالِق و مخلوق کا رِشتہ ہے کیسا اے غُلام
یَا صَمَد کے نَعرہ سے عُقدہ کُشائی کر گئے

1
52
ماشاءاللہ بہت خوب