نظر کمزور ہوتی جا رہی ہے
چبھن رہتی ہے کانوں میں ذرا سی
مکمّل سر پیالہ تو نہیں، پر
کمی بالوں کی بالوں میں ذرا سی
بڑھاپا گھیرنے کو ہے، لپٹ جائیں
ابھی طاقت ہے بانہوں میں ذرا سی
چھڑی تھاما ہُوا بابا نہ دیکھیں
حیا رہ جائے بچّوں میں ذرا سی
کہاں تک اور دن کاٹیں گے تنہاؔ
نکالو بات راتوں میں ذرا سی

0
1
72
مطلع کا پہلا مصرع انڈیا کے مشہور شاعر تابش ریحان سے مل رہا ہے

0