وہی زخم پھر سے ستانے لگے ہیں
جنہیں سوکھنے میں زمانے لگے ہیں
جنہیں بے وفائی کا تمغہ ملا ہے
وہی اب ہمیں آزمانے لگے ہیں
غلامی کی ایسی لگی ہم کو عادت
یوں ہی بے وجہ سر جھکا نے لگے ہیں
بہا کر لہو ہم کماتے ہیں روٹی
وہ روٹی بھی ہم سے چرانے لگے ہیں
سیاست کسی کو کہاں چھوڑتی ہے
یہاں ہوش سب کے ٹھکانے لگے ہیں
شہادت ہماری محبت ہے لوگوں
ہمیں موت سے کیوں ڈرانے لگے ہیں
چمک دیکھ نے ایک ذرے کی طیب
فلک سے ستارے بھی آنے لگے ہیں

1
23
ما شا اللہ

0