سکینہ کرتی ہے یوں انتظار غازی کا |
ادھر لحد میں ہے دل بے قرار غازی کا |
لحد پہ ہوتے ہیں بی بی کی بین غازی کے |
کہ جیسے یہ بھی ہو لوگو مزار غازی کا |
مشک کو ایسے ہے یہ چومتا مِرا غازی |
کہ جیسے مشک ہے پروردگار غازی کا |
بریدہ سَر سے وہ کہتی ہے آب لا کر دو |
وہ روتا جاتا ہے سر زار و زار غازی کا |
شمر نے مار تماچے بی بی کو راہوں میں |
یہ سر دُکھایا ہے کتنی ہی بار غازی کا |
کسی نے مانگا کنیزی میں جب سکینہ کو |
سناں سے گِر گیا سَر دل فگار غازی کا |
اِسی کو سمجھا ہے غازی نے فاطمہ شفقت |
اِسی مشک پہ ہوا سب نثار غازی کا |
معلومات