| خبر ہے کس کو یہاں، کون بے خبر آیا |
| سفر تمام ہوا ہے نہ ہم سفر آیا |
| نہ کوئی دوست یہاں ہے نہ ہم نوا کوئی |
| فؔراز گردش دوراں میں تو کدھر آیا |
| میں چاہتوں کی نئی اک تلاش منزل میں |
| رہا سفر میں ہمیشہ کبھی نہ گھر آیا |
| وہ جن کو شک تھا خدا پر وہ سوئے طور چلے |
| یقیں کو وقت ازل ہی خدا نظر آیا |
| مرے نصیب کی بستی سنوار دے مالک |
| بڑے یقین سے میں بھی ہوں تیرے در آیا |
| قدم قدم پہ وہیں تھا میں خوشبوؤں کی طرح |
| مرا خیال تجھے جان جاں جدھر آیا |
| عجیب شخص تھا جس کی سادگی پہ مرا |
| فؔراز خاص نہ تھی بات دل مگر آیا |
معلومات