خبر ہے کس کو یہاں، کون بے خبر آیا
سفر تمام ہوا ہے نہ ہم سفر آیا
نہ کوئی دوست یہاں ہے نہ ہم نوا کوئی
فؔراز گردش دوراں میں تو کدھر آیا
میں چاہتوں کی نئی اک تلاش منزل میں
رہا سفر میں ہمیشہ کبھی نہ گھر آیا
وہ جن کو شک تھا خدا پر وہ سوئے طور چلے
یقیں کو وقت ازل ہی خدا نظر آیا
مرے نصیب کی بستی سنوار دے مالک
بڑے یقین سے میں بھی ہوں تیرے در آیا
قدم قدم پہ وہیں تھا میں خوشبوؤں کی طرح
مرا خیال تجھے جان جاں جدھر آیا
عجیب شخص تھا جس کی سادگی پہ مرا
فؔراز خاص نہ تھی بات دل مگر آیا

0
1
57
مقطع کا مصرعِ اولیٰ خارج البحر ہے
اصلاح کیجے محترم!

0