دربارِ رسالت کی ہر بات نرالی ہے
کثرت یہ عطاؤں کی بھرے جھولی خالی ہے
ہیں منگتے جو دلبر کے وہ کھاتے ہیں اس در سے
سب عمدہ عطائیں ہیں ہے داتا جو والی ہے
آتا ہے جو اس در پر وہ خیر کماتا ہے
ہے جلوہ ہدف اس کا جو خاص بلالی ہے
ہو وصل مقدر میں کریں مل کے دعا سارے
محبوب حسیں سب سے کونین میں عالی ہے
ہے بدرِ اتم چہرہ والیل حسیں زلفیں
یکتا ہیں حسن میں جاں اور شان نرالی ہے
دلبر ہے کہاں ایسا جسے یار کہے مولا
یکتا وہ جمیلوں میں کیا جلوہ جمالی ہے
کب چاند حسیں ایسا جو ماں نے جنا اُن سا
تصویر لگے خود یوں دلبر نے بنالی ہے
محمود وہ شاہِ شہاں تو ہے احقر اسفل میں
اس چوکھٹِ دلبر پر دارین سوالی ہے

0
1
20
ماشااللہ کیا کہنے ہیں۔